تحریر: مصطفی غفاری
شیخ حر عاملی کی کتاب وسائل الشیعہ میں امام علی رضا علیہ السلام سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں فتنے کی وضاحت کرتے ہوئے بیان ہوا ہے: "إنّ ممّن ينتحلُ مودّتنا أهلَ البيت، من هو أشدُّ فتنةً علي شيعتِنا من الدّجّال. فقلتُ: بماذا؟ قال: بموالاتِ أعدائِنا و معاداةِ أوليائِنا. إنّه إذا كان كذلك، اختلطَ الحقُّ بالباطل و اشتبهَ الأمرُ فلم يُعرَف مؤمنٌ من منافقٍ" (وسائل الشیعہ، جلد 16، صفحہ 179) یعنی "بالتحقیق ایسے افراد میں سے جو ہم اہلبیت سے محبت کے دعویدار ہوں گے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو دجال سے بھی بڑا فتنہ ثابت ہوں گے۔ راوی نے پوچھا: کیونکر؟ امام ع نے فرمایا: ہمارے دشمنوں سے دوستی اور ہمارے دوستوں سے دشمنی کی خاطر۔ جب ایسا ہو گا تو حق باطل سے گڈ مڈ ہو جائے گا اور مومن اور منافق کی شناخت ختم ہو جائے گی۔"
امام علی رضا علیہ السلام کی اس فرمائش کی روشنی میں ممکن ہے اہلبیت علیہم السلام سے محبت کا دعوی کرنے والے افراد ایسا فتنہ ایجاد کریں جو حقیقی شیعوں کیلئے دجال سے بھی زیادہ شدید ثابت ہو۔ لہذا صرف ظاہری طور پر حق کا حامی ظاہر کرنے والے فرد پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا اس کا عمل بھی اس ظاہر کی تصدیق کرتا ہے یا نہیں؟ امام علی رضا علیہ السلام کی فرمائش میں اس شدید ترین فتنے کی وجہ اہلبیت علیہم السلام کے دشمنوں سے دوستی اور ان کے دوستوں سے دشمنی قرار دی گئی ہے۔ یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ عمل حق اور باطل کے آپس میں گڈ مڈ ہو جانے کا باعث بنتا ہے جس کے باعث حقیقت کا چہرہ چھپ جاتا ہے اور مومن اور منافق کی شناخت ممکن نہیں رہتی۔
حقیقت یہ ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کے دشمنوں سے دوستی اور ان کے دوستوں سے دشمنی، فتنہ گر افراد کی بہت اہم اور بنیادی خصوصیت ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام نے بھی یہ خصوصیت ذکر کر کے ان کا ایک اہم ہتھکنڈہ واضح کیا ہے۔ لہذا اس حدیث کی روشنی میں بصیرت کا معیار "اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں سے دوستی اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا" معلوم ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کہیں اس کا قول یا فعل چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے دشمن کے اہداف کو پورا تو نہیں کر رہا؟ اور کہیں اس نے دوست اور دشمن کی جگہ تبدیل تو نہیں کر دی؟ یوں امام علی رضا علیہ السلام کی اس حدیث میں فتنہ گر افراد کی خصوصیت بیان کئے جانا درحقیقت فتنہ گری کا علاج بھی ہے۔ اسلامی معاشرے میں موثر افراد کو اس بات کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔
ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی بارہا اسلامی معاشروں کی اہم شخصیات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں دشمن کے ردعمل کا بغور جائزہ لیتے رہیں۔ آپ فرماتے ہیں: "بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم دشمن کا پزل مکمل کر رہے ہوتے ہیں۔ پزل میں مختلف اجزاء ایک ساتھ رکھے جاتے ہیں تاکہ انہیں ملا کر ایک تصویر مکمل کی جا سکے۔ بعض اوقات ہم دشمن کے پزل کا ایک جزو ہوتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دشمن کے اہداف کی تکمیل نہ کریں۔ دشمن ایک پزل تشکیل دیتا ہے اور بعض افراد اس پزل کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئے ہم ایسے نہ ہوں۔ دشمن کے پزل کو مکمل نہ کریں۔ دیکھیں دشمن کیا چاہتا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اس کے اہداف کو واضح طور پر دیکھیں۔"
امام علی رضا علیہ السلام فتنہ گر عناصر کی جانب سے اہلبیت علیہم السلام سے محبت کا ڈھونگ رچانے کو دجال سے بھی بڑا فتنہ قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا یہ ظاہری ڈھونگ ایک فریب ہوتا ہے اور وہ درپردہ اہلبیت علیہم السلام کے دشمنوں سے تعاون کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں فتنے کی فضا تشکیل پاتی ہے اور مومن اور منافق کی پہچان ممکن نہیں رہتی۔ کیونکہ منافق خود کو ہمدرد مصلح کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: "جو چیز مسئلہ بناتی ہے وہ وہی فریب کاری، فضا کا غبار آلود ہونا اور وہی چیز ہے جس کے بارے میں امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: و لكن يؤخذ من هذا ضغث و من هذا ضغث، فيمزجان؛ فهنالك يستولى الشّيطان على اوليائه۔" لہذا دشمنان اہلبیت ع سے دوستی جس کی بنیاد دشمن پر اعتماد ہے، خود فتنہ پیدا ہونے کا سبب ہے۔
امام علی رضا علیہ السلام کی اس حدیث کی روشنی میں بصیرت حاصل کرنے کا ایک راستہ فتنے کا سبب ختم کرنا ہے یعنی اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں پر اعتماد کرنا اور ان کے دشمنوں سے بدبین ہو کر دوری اختیار کرنا۔ امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: "آج اسلامی دنیا میں اسلام پسندی کی چوٹی اسلامی جمہوریہ ہے جس کے مقابلے میں کئی دشمن صف باندھے کھڑے ہیں۔ عالمی استعمار ان تمام صفوں کے مرکز میں ہے۔ صیہونزم ان صفوں کے مرکز میں ہے۔ وہ واضح طور پر اسلام کے خونی دشمن ہیں لہذا اسلامی جمہوریہ کے بھی خونی دشمن ہیں۔ یہ ایک معیار ہے۔ اگر ہم نے کوئی کام کیا جس کا فائدہ ان دشمنوں کو پہنچا تو جان لیں اگر غافل ہیں تو بیدار ہو جائیں، جان لیں کہ غلط راستے پر گامزن ہیں۔ اگر ایسا کام کیا جس سے یہ دشمن غصے میں آئے تو جان لیں کہ صحیح راستہ اپنایا ہے۔"