تحریر: سید تنویر حیدر
شام کا فتنہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس فتنہ نگر کا ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو ایک اور دروازہ کھل جاتا ہے۔ شام کا باب فتن کھولنے میں کئی قوتیں اور کئی ریاستیں شامل تھیں۔ داعش نام کے عفریت کو اسی علاقے میں پنپنے کے لیے زمین فراہم کی گئی۔ ترکی کا اس حوالے سے سب سے برا کردار ہے، وہ اس لیے کہ ترکی کے صدر اردگان ہی ہیں جنہوں نے اول اول بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے دنیا بھر سے دہشت گرد اپنے علاقے میں جمع کئے اور انہیں پھر شام کی سرحد کے اندر چھوڑ دیا، ان دہشت گردوں نے عرب ممالک، امریکہ، اسرائیل اور کئی دوسرے ممالک کی حمایت سے شام اور عراق کے کئی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا اور اس پر اپنی خلافت قائم کرلی۔ اس عرصے میں انہوں نے ظلم و ستم کی کئی دستانیں رقم کیں لیکن پھر ان کی بیخ کنی کے لیے جنرل قاسم سلیمانی شہید جیسی ہستیاں منصہءشہود پر نمودار ہوئیں اور ان کی معجزنما شخصیت کی کمان میں اس فتنے کو دیوار سے لگا دیا گیا۔
اگرچہ وقتی طور پر ان تکفیری عناصر کی کمر ٹوٹ گئی لیکن فتنہ گر طاقتیں، جن میں امریکہ اور اسرائیل پیش پیش تھے، مسلسل اس کوشش میں رہیں کہ ان فتنہ پردازوں کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع ملے۔ چنانچہ ان کی سرتوڑ کوششوں سے ایک بار پھر یہ فتنہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ شدت کے ساتھ ابھرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ ایک بار پھر نئے سرے سے جگر خوارہ کے بیٹوں کو دودھ پلایا جا رہا ہے اور انہیں کسی نئے میدان میں جھونکنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس بار ان کی فتنہ پردازیوں کا مرکز شام، عراق اور ترکی سے متصل شام کا مشرقی علاقہ ہے۔ لمحہء موجود میں یہ علاقہ ایک ایسی چھاؤنی کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جہاں کئی ممالک کے لشکری اور ان سے وابستہ کئی قسم کی ملیشیائیں ڈیرے ڈالی ہوئی ہیں۔
ان میں فی الحال امریکہ، ترکی، ایران اور شام کی افواج، ان سے وابستہ اور ان کے مخالف کردوں کے کئی جماعتیں، داعش اور اس جیسی کئی تکفیری تنظیمیں اور مقامی عرب قبائل کے کئی گروہ جن کی اپنی اپنی وابستگیاں ہیں شامل ہیں۔ فضاؤں میں روس کی فضایہ بھی اس معرکے میں اپنا حصہ ڈالے ہوئے ہے، ہر کوئی یہاں اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے۔ امریکہ اور ترکی کی حامی جماعتیں اور داعش کا بنیادی مقصد اگرچہ بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہے لیکن اس علاقے پر اپنے قبضے کے لیے باہمی طور پر بھی برسرپیکار ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شام کا ”دیرالزور“ کا علاقہ مختلف گروہوں کے باہمی تصادم کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ ”دیرالزور“ مشرقی سیریا کا سب سے بڑا اور سیریا کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ شام یا سیریا چودہ محافظات، Governorates یا صوبوں میں منقسم ہے۔ جن میں سے ایک ”دیرالزور“ بھی ہے۔ دیرالزور ایک شہر بھی ہے جو صوبہ دیرالزور کا صدر مقام ہے اور دمشق سے 450 کلو میٹر کےفاصلے پر ہے۔
اس علاقے میں ترکی اور امریکہ کے حامی اور مخالف کرد، ایران کی حامی اور مخالف قوتیں اور علاقے کے عرب قبائل جن میں سیریا کی حکومت کے حامی اور مخالف دونوں شامل ہیں، اپنا وجود رکھتے ہیں۔ یہ علاقہ ایک ایسا بھنور ہے جس میں ہر کوئی کھنچا چلا آرہا ہے۔ یہاں ہر کوئی ہر کسی کے نشانے پر ہے، آج کی کئی قطبی دنیا میں یہ ایسا خطہ ہے جہاں امریکہ کے اتحادی بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ دیرالزور کے اس علاقے کا پرانا نام ”قرقیسیا“ ہے، یہی وہ علاقہ ہے جس کا ذکر احادیث و روایات میں ملتا ہے۔ روایات کے مطابق امام مہدی (عج) کے ظہور سے قبل اس علاقے میں بہت بڑی جنگ لڑی جائے گی جس میں ناقابل بیان حد تک تباہی ہوگی لیکن کامیابی کسی کے نصیب میں نہیں ہوگی، اس جنگ کو ”جنگ قرقیسیا“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس جنگ کی خاص بات یہ ہوگی کہ یہ اہل بیتؑ کے دشمنوں کے مابین لڑی جائے گی اور امام زمانہ (عج) کے ظہور کا پیش خیمہ ہوگی۔