تحریر: ایس این حسینی
اپنی تحویل میں لے کر حکومت نے شرپسندوں کو پانچ گھنٹے اپنے پاس رکھا۔ مبینہ طور پر ایف سی نے ان سے مکمل تفتیش کی۔ پوچھا اس راستے کو کیوں استعمال کیا، تو انہوں نے اس تمام تر غلطیوں کا الزام عمران کونسلر پر عائد کیا۔ چاروں نے اقرار کیا کہ باسو میں ایف سی حوالدار کے بار بار منع کرنے کے باوجود عمران ہی نے ضد کی، اور اس راستے پر ہمیں لایا۔ تفتیش کرنے کے بعد اور دیہات میں چہلم کے رسومات اور مجالس ختم ہوجانے کے بعد اپنی سیکیورٹی میں انہیں اپنے علاقے مقبل پہنچا دیا۔ اسی دن شام کو صوبیدار رحمان اللہ کنج علی زئی آگئے اور ملزمان کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ ویڈیو وائرل نہ کی جائے۔ کنج علیزئی عمائدین نے مشروط طور پر رضامندی ظاہری کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمران نے آئندہ اس حوالے سے یا کنج علی زئی کے معاملات کے حوالے سے کوئی بھی ناجائز ویڈیو کی تو اس ویڈیو سمیت انکے تمام کرتوتوں کو وائرل کیا جائے گا۔ مگر ان مکار اور عیاروں نے اسی شام وہی پرانا شیوہ اختیار کرکے ویڈیو جاری کرتے ہوئے الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ اسکے بعد کنج علی زئی کے عمائدین کمانڈر تائیدہ قلعہ سے ملے۔ انکے ساتھ اس مسئلے پر گفت وشنید ہوگئی اور انکی مکاری، الزامات خصوصا ویڈیو کے رد عمل پر خصوصی بات چیت ہوگئی۔
اگلے روز کنج علی زئی کی جانب سے بھی حقیقت پر مبنی ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں ان کے الزامات کی نفی کی گئی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں مارا پیٹا گیا ہے اور بھوکا پیاسا رکھتے ہوئے چار گھنٹے بیابان میں رکھا گیا ہے۔ ویڈیو میں انہیں مسجد میں باعزت بٹھانے کی تصاویر دی گئی تھیں اور ساتھ ہی انکی سابقہ ویڈیوز میں الزامات کا دودھ پانی کرایا گیا تھا۔ جس کے بعد یہ لوگ مکمل طور پر بوکھلا گئے اور صدہ میں طالبان نواز اور شرپسند قبائل نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ اس واقعے کے ردعمل میں جنگ کی دھمکیاں دی جانے لگیں تو کچھ روز کے انتظار اور انکے مسلسل ویڈیوز اور دھمکیوں کے جواب میں طوری قبائل نے بھی جوابی ویڈیوز شروع کیں اور اجتماعات اور پریس کانفرنسز کا سلسلہ شروع ہوا۔ مئی میں ہونے والے سانحہ تری منگل میں شہید ہونے والے اساتذہ کا مسئلہ بھی شیعوں نے دوبارہ اٹھا لیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ سات اساتذہ کے قاتل ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوسکے۔ پرنٹ اور سوشل میڈیا پر دو تین دن مسلسل مہم چلائی گئی اور تری سمیت کرم بھر میں طالبان اور طالبان نواز افغان قبائل کی خطرناک سرگرمیوں سے پردہ ہٹایا گیا۔
اہلیان کنج علی زئی اور نستی کوٹ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح کیا کہ انکے قبائل محب وطن پاکستانی ہیں جبکہ مقبل کے علاقے میں گزشتہ چھے ماہ کے دوران ایک درجن کے قریب ایف سی اہلکار جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اسکے علاوہ تری منگل کے ساتھ بارڈر میں بھی ہر سال بیسیوں اہلکار جان بحق ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے سرکاری افسران اور اہلکاران کے ساتھ بھی تفصیلی بات چیت ہوگئی اور انہیں اپنے اور متقابل فریق کی مکمل تاریخ دہرائی گئی۔ انہیں بریف کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ صرف کرم ہے اور کرم میں بھی صرف اپر کرم کا شیعہ نشین علاقہ ہی ہے، جہاں طول تاریخ میں کبھی سرکاری اہلکاروں کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کبھی ایک لمحے کے لئے پاکستانی جھنڈا سرنگون ہوا ہے جبکہ مقابل فریق کے علاقوں میں کئی سال تک طالبان کی اجارہ داری رہی، وہاں سرکاری عمارات کو ملیا میٹ کیا گیا، سرکاری افراد کو اغوا کرکے قتل کیا گیا، جہازوں کو نشانہ بنا کر گرایا گیا جس میں سرکاری افسران سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس وقت بھی انکے اکثر علاقوں میں طالبان کی اجارہ داری ہے جبکہ شیعہ علاقوں میں وہ نہایت سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ طالبان نواز منگل اور مقبل قبائل اپنی مکاری سے پھر بھی باز نہیں آرہے اور طوریوں کو حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
اس دوران کنج علی زئی اور نستی کوٹ کے متعدد افراد پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہیں اور صدہ میں عام طوریوں سے بلکہ زائرین کربلا سے انتقام لینے تک کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، تاہم انہیں بخوبی علم ہے کہ طوری بنگش فیس بک اور سوشل میڈیا کی بجائے محاذ جنگ میں اپنے فن کے جوہر دکھانے والے قبائل ہیں۔ یہ بھی علم ہے کہ وہ اپنے مابین گروپوں میں بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ انہیں شکست کسی صورت میں نہیں دی جاسکتی اور یہ کہ طالبان باہر سے آکر جنگ بھڑکائیں گے، تاہم وہ خود بھاگ کر طوری بنگش قبائل کے ہاتھوں یہاں کے اہلسنت قبائل کا نقصان کرائیں گے۔ چنانچہ انکے سنجیدہ عمائدین اپنے اجتماعات سمیت طوریوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی طالبان اور دیگر شرپسندوں کی کھلم کھلا نفی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طالبان کو اپنی صفوں میں کبھی جگہ نہ دینا ورنہ 2007ء کی طرح بلکہ اس دفعہ اس سے کئی گنا بڑھ کر نقصان پہنچائیں گے۔ طوری بنگش قبائل انہیں مسلسل پیش کش کرتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے تمہیں اگر کوئی خطرہ بھی ہو تو انکی خدمات حاصل کی جائیں۔ تاہم انکے عمائدین بعض اپنے شدت پسندوں خصوصا طالبان کی خوف سے واضح موقف اختیار نہیں کرسکتے۔