1
Sunday 17 Sep 2023 22:37

افریقہ میں فرانس مخالف فوجی اتحاد کی تشکیل

افریقہ میں فرانس مخالف فوجی اتحاد کی تشکیل
تحریر: علی احمدی
 
افریقی ممالک مالی، بورکینافاسو اور نائیجر ساحلی خطے (افریقہ کے عظیم صحرا کا جنوبی حصہ) میں واقع ہیں۔ گذشتہ دو برس کے دوران ان ممالک میں فوج کے ذریعے سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں سے تازہ ترین سیاسی تبدیلی نائیجر میں اس وقت سامنے آئی جب فوج نے سابق صدر کو معزول کر کے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ نائیجر کے سابق صدر محمد بازوم مغرب نواز تھے اور جب فوج نے انہیں اقتدار سے ہٹا دیا تو "ایکواس" نامی مغربی افریقہ کی اقتصادی یونین کے رکن ممالک نے فرانس کے ہمراہ محمد بازوم کی اقتدار میں واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ فرانس اور اس کے حامی افریقی ممالک نے یہ مطالبہ منظور نہ ہونے کی صورت میں حتی فوجی حملے کی دھمکی بھی لگائی اور نائیجر کے فوجی رہنماوں کو خبردار کیا کہ وہ جلد از جلد سابق صدر کو اقتدار واپس دے دیں۔
 
نائیجر میں برسراقتدار آنے والی فوجی کونسل نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا: "فرانس نے ایکواس کے بعض رکن ممالک میں اپنے فوجی تعینات کر دیے ہیں جن کا مقصد نائیجر پر حملہ ور ہونا ہے۔" دوسری طرف ایکواس کے رکن دو افریقی ممالک مالی اور بورکینافاسو نے خبردار کیا ہے کہ اگر فرانس کی سرکردگی میں نائیجر پر فوجی حملہ انجام پایا تو وہ نائیجر کا ساتھ دیں گے اور اس کا دفاع کریں گے۔ نائیجر، مالی اور بورکینافاسو نے چند دن پہلے ایک فوجی اور سکیورٹی معاہدے پر بھی دستخط کئے ہیں جس کی روشنی میں یہ طے پایا ہے کہ ان میں سے کسی بھی ملک میں بغاوت رونما ہونے یا اس پر فوجی حملہ ہونے کی صورت میں دیگر ممالک اس کی ہر ممکنہ مدد اور حمایت کریں گے۔ یہ معاہدہ "ساحلی ممالک کے اتحاد" کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
 
اس معاہدے میں مزید کہا گیا ہے کہ کسی ایک ملک کی خودمختاری یا سالمیت پر حملہ اتحاد میں شامل تمام ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یوں "ساحلی ممالک کے اتحاد" میں شامل رکن ممالک کسی بھی خطرے کی صورت میں ایکدوسرے کی بھرپور مدد کا تہیہ کر چکے ہیں جس میں فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔ اس معاہدے پر دستخط کئے جانے سے پہلے بند دروازوں کے پیچھے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں روس کے نائب وزیر دفاع سمیت مالی، بورکینافاسو اور نائیجر کے وزرائے دفاع نے شرکت کی۔ یہ اجلاس مالی کے دارالحکومت میں منعقد ہوا۔ روس کے نائب وزیر دفاع نے اس اتحاد کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ساحلی ممالک کے اتحاد کا باقاعدہ اعلان ہونے سے ایک دن پہلے بورکینافاسو نے فرانسیسی سفارت خانے کے فوجی اٹیچی سے دو ہفتے کے اندر اندر ملک چھوڑ کر چلے جانے کا مطالبہ کیا۔
 
فرانس نے داعش اور القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے بہانے مالی، بورکینافاسو اور نائیجر میں اپنے فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ ان فوجیوں کی موجودگی سے نہ صرف دہشت گردانہ حملوں میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں سیاسی تبدیلی رونما ہونے کے بعد برسراقتدار آنے والی نئی حکومتوں نے اپنے اپنے ملک سے فرانسیسی فوجیوں کے فوری انخلاء کا مطالبہ کیا ہے۔ براعظم افریقہ کے امور کا جائزہ لینے والے ماہرین کہتے ہیں کہ مالی، بورکینافاسو اور نائیجر کے درمیان فوجی اتحاد کی تشکیل کا مطلب جی 5 گروپ یا ساحلی ممالک کا گروپ کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ یہ گروپ 2014ء میں تشکیل دیا گیا تھا لیکن اب اسے تشکیل دینے والے سیاسی رہنما اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مثال کے طور پر چاڈ کے سابق صدر ادریس دیبی مسلح گروہ کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔
 
اسی طرح جی 5 گروپ کے ایک اور بانی رہنما موریطانیہ کے سابق صدر محمد ولد عبدالعزیز تھے جو اس بار صدارتی الیکشن میں ہار گئے ہیں اور ان کی جگہ محمد ولد شیخ غزوانی نے لے لی ہے۔ اسی طرح مالی کے سابق صدر ابراہیم بوباکار کیتا، بورکینافاسو کے سابق صدر کابورا اور نائیجر کے سابق صدر محمد بازوم بھی فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں اپنے عہدوں سے برکنار ہو چکے ہیں۔ پانچ افریقی ممالک چاڈ، موریطانیہ، مالی، بورکینافاسو اور نائیجر نے دہشت گردی سے مقابلے کیلئے جی 5 گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس گروپ کو فرانس کی حمایت حاصل تھی۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ان ممالک میں تعینات فرانسیسی فوجی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مدد کریں گے لیکن تجربات سے ثابت ہوا کہ یہ توقع بجا نہیں تھی۔ لہذا مالی، بورکینافاسو اور نائیجر کے فوجی حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ فرانس کی فوجی موجودگی کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا فرانسیسی کمپنیاں ملک کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
 
2021ء میں مالی کے فوجی سربراہان نے صدر کا تختہ الٹ دیا اور فرانس کے ساتھ تمام فوجی معاہدے کالعدم قرار دے دیے۔ نئی حکومت نے ملک سے فرانسیسی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کر دیا۔ فرانس نے مالی سے اپنے فوجی واپس بلا لئے۔ کچھ عرصے بعد بورکینافاسو میں بھی فوجی بغاوت ہوئی اور فرانس نواز صدر کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ نئی حکومت کے مطالبے پر فرانس بورکینافاسو سے بھی اپنے فوجی واپس بلانے پر مجبور ہو گیا۔ نائیجر میں بھی کچھ ماہ پہلے فوج نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر فرانس سے فوجی انخلاء کا مطالبہ کیا ہے۔ اگرچہ فرانس نے اب تک اس مطالبے پر عمل نہیں کیا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پاس فوجی انخلاء کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افریقہ میں فرانس کا اثرورسوخ تیزی سے زوال کا شکار ہے۔
خبر کا کوڈ : 1082189
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش