تحریر: سید اسد عباس
ذکر حسین ؑ کو عموماً ایک مکتب فکر کا عمل تصور کیا جاتا ہے، جو بالکل غلط تاثر ہے، عالم انسانیت میں بہت سے لوگ ذکر حسین کا اہتمام کرتے ہیں، جن میں عیسائی، ہندو، سکھ، لامذہب سبھی شامل ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ذکر حسین کو چند مخصوص رسومات کی انجام دہی سمجھا جاتا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ رسومات تو ان جذبات کے اظہار کا ایک انداز ہیں، جو ذکر حسین ؑسے انسان میں پیدا ہوتے ہیں۔ ذکر حسین درحقیقت تاریخ کے ایک اندوہناک واقعہ کے بارے میں ایک نظریہ اور رائے رکھنے کا نام ہے۔ اس واقعے کے تذکرے کا مقصد نہ فقط واقعہ کربلا کے عوامل کو جاننا ہوتا ہے بلکہ انسان میں اس واقعہ کے کرداروں کے بارے جذبات پیدا کرنا نیز اپنی زندگیوں کو ان احساسات سے سیراب کرنا اور ظلم کے اسباب کا سدباب بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذکر حسین سننے اور کرنے والا ہر وہ شخص جو ان واقعات میں مظلومیت امام حسین ؑ کے نتیجے پر پہنچتا ہے، وہ کبھی بھی زندگی میں ظلم نہیں کرسکتا۔ذکر حسین کرنے والا شخص کبھی ظالم کا ساتھ نہیں دے گا۔ ایسا شخص ظلم اور ظالم سے نفرت کرے گا۔
اگر ذکر حسین ؑ کے اسی فائدے کو دیکھا جائے تو یہ فائدہ ہی انسانیت کے لیے کافی ہے کہ یہ ذکر انسان میں انسانیت کو بیدار کر دیتا ہے۔ انسان ظلم اور ظالم سے نفرت کرنے لگتا ہے، خواہ ظلم کرنے والا اپنا ہی کیوں نہ۔ اگر انسانی معاشرے میں یہ ملکہ پیدا ہو جائے کہ وہ ظلم اور ظالم سے نفرت کرنے لگے تو ظالم کو کبھی بھی ظلم کرنے کا حوصلہ نہ ہو۔ اسلام نے ظلم اور ظالم کو جتنا قبیح قرار دیا ہے، اتنا ہی ظلم پر خاموش رہنے کو بھی مکروہ عمل جانا ہے۔رسول اکرم ؐ نے اپنی تعلیمات کے ذریعے مسلمانوں کو رحمدلی، شفقت اور ہمدردی کا درس دیا۔ چھوٹوں سے پیار، بزرگوں کا احترام، جانوروں پر رحم، حشرات اور درختوں سے محبت کا درس ہمیں سیرت رسول اکرم ؐ سے ملتا ہے۔ جس معاشرے سے یہ خصوصیات ختم ہو جائیں، وہ معاشرہ جہنم کا منظر پیش کرتا ہے۔ کجا یہ کہ انسان ظلم پر خاموش رہے، یا اس سے بالکل کٹا ہوا ہو۔
کل پاکستان میں ایک بچے کی موت سے پورے پاکستان کو دہلا کر رکھا دیا۔ اس بچے کی بیماری، حالت و کیفیت نے ہر دل پر ضرب لگائی۔ میاں عمار فاروق پی ٹی آئی کے راہنماء میاں عباد فاروق کا بیٹا تھا، جو اپنی عمر کے دیگر بچوں کی مانند ہنستا مسکراتا چہرہ تھا۔ کبھی والد کے ساتھ گالف کھیلتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی بازار سے کرسیاں خرید کر لاتا نظر آتا ہے، یہ بچہ اپنے دیگر بھائیوں کی مانند صحت مند، خوش باش بچہ تھا کہ اچانک نو مئی کے بعد اس کی زندگی بدل گئی۔ اس کے والد کو جناح ہاؤس لاہور کے واقعہ میں ائیرپورٹ سے گرفتار کر لیا گیا، بعد میں پولیس اس بچے کی والدہ اور دادی کو گھر گرفتار کرنے آئی۔بچے کے چچا کے مطابق یہ بچہ ان واقعات سے پہلے مکمل صحت مند تھا۔ ان واقعات کے بعد اچانک اس بچے کے مزاج میں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ بچے کے اساتذہ نے والدین کو سکول بلایا کہ عمار کے برتاؤ میں تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ بچے کا معائنہ کروایا گیا تو ڈیپریشن سامنے آیا، جو آہستہ آہستہ ٹراما کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ بچہ اس ٹراما سے نہ نکل سکا اور 18 ستمبر2023ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
مسئلہ ایک عمار کا نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے میں سینکڑوں عمار ہیں۔ بلوچ عمار، پشتون عمار، شیعہ عمار، سنی عمار، غریب عمار کس کس قوم کے عمار کا تذکرہ کیا جائے، جو اس وقت ذہنی ٹراما سے گزر رہے ہیں۔ ان ہزاروں، لاکھوں عماروں کے ٹراما کا ذمہ دار پورا معاشرہ، ہمارا سسٹم ہے، جس کا جواب یقیناً ہم سب کو دینا ہوگا۔ پاکستانی معاشرے میں انسانی جان کو ایسے بے وقعت کر دیا گیا ہے، جیسے یہ کوئی قابل ذکر شے نہیں۔ ہم اگر کسی شخص کو کوئی چیز امانتا دیتے ہیں تو اس سے وہ چیز ویسے ہی واپس مانگتے ہیں، جیسی ہم نے اسے سونپی تھی، اگر امانتاً دی ہوئی چیز میں ذرا سی بھی خامی نظر آجائے تو ہمارا غصہ تو ایک جانب ہمارے ارادے بھی قابل دیدنی ہوتے ہیں کہ آئندہ اس شخص کو یہ چیز نہیں دینی، لاکھوں صلواتیں سناتے ہیں، حتی نقصان پورا کرنے کا کہتے ہیں۔
یہ انسانی جانیں ہم سب کے پاس کسی کی امانت ہیں اور ان کا مالک ان کے ضیاع اور نقصان کے بارے ضرور سوال کرے گا۔ اسی لیے اسلام نے قتل عمد کا قصاص رکھا، ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا، ایک انسان کو زندگی دینے کو انسانیت کو زندگی دینا قرار دیا۔ کسی عضو کے ضائع کرنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا، خودکشی کو حرام قرار دیا گیا، حتی اپنی اولاد کے جسم پر نشان ڈالنے پر دیت قرار دی گئی۔ خدا اور اس کا دین انسان کو بتا رہا ہے کہ جانوں کو اپنی ملکیت مت سمجھو، ان کا مالک کوئی اور ہے، لیکن ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر ان جانوں میں جس تصرف کا آغاز کیا ہوا ہے، وہ عجیب ہے۔
معاشرے کا کوئی بھی شخص، ادارہ، حکومت اس بے انصافی، اصراف کی جوابدہی سے نہیں بچ سکتی۔ میں جانتا ہوں کہ اس بات کا اثر کسی پر نہیں ہوگا۔ ایک دو روز کی بے چینی کے بعد پاکستانی اپنی اپنی مصروفیات میں گم ہو جائیں گے، تاہم یاد دہانی ضروری ہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ معاشرے کی انسانیت کے حوالے سے تربیت کی جائے، ان کو خوف خدا سکھایا جائے، جو کربلا سے بہتر کہیں بھی نہیں سکھایا جا سکتا۔ کربلا ہمیں انسانیت کا درس دیتی ہے، کربلا مظلوم کی حمایت سکھاتی ہے، کربلا ظلم نہ کرنے کا جذبہ دیتی ہے۔ ہمیں کربلا کو مسلکی انداز سے نہیں انسانی تربیت کے پہلو سے دیکھنا ہوگا۔ اگر ہم نے کربلا کو اس پہلو سے دیکھا ہوتا تو ہمارا معاشرے ظلم و ستم سے بہت دور ہوتا۔