تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
فرعون کو نجومیوں نے بتایا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا، جو تیری حکومت کے خاتمے اور تیرے زوال کا باعث بنے گا۔ فرعون زمین پر خدائی کا دعویٰ رکھتا تھا۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور اعلان کیا کہ بنی اسرائیل میں کوئی بچہ پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس کے بعد تاریخ کا بدترین عمل شروع ہوا، جس میں فرعون کے کارندے گھر گھر جاتے اور دیکھتے، اگر کسی عورت میں حمل کے آثار ہوتے تو فوراً اسے ضائع کرا دیا جاتا۔ کہتے ہیں کہ فرعون نے بچوں کے قتل عام کا پورا نظام تربیت دیا تھا، جس میں تجربہ کار دائیاں بنی اسرائیل کی خواتین پر نظر رکھتی تھیں اور انہیں خواتین کے چلنے سے ہی پتہ چل جاتا تھا کہ یہ حاملہ ہیں یا نہیں۔ غرض فوعون اور بچہ کشی لازم و ملزوم ہوگئی۔
آج ہزاروں سال گزر جانے کے بعد فرعون بچہ کشی کی وجہ سے قابل نفرت ہے۔دنیا کی منافقت دیکھیں، اس فرعون سے نفرت کرتی ہے اور اسے ایک لعنت کے طور پر جانتی ہے، مگر آج کی تاریخ میں وہی کردار اسرائیل ادا کر رہا ہے۔ آج کی نام نہاد مہذب دنیا اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہے، اس وقت بھی طاقت فرعون کے پاس تھی، آج بھی طاقت والے فرعونیت دکھا رہے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ ؑ سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں۔؟ موسیٰ ؑ پہلے خود مظلوم اور زندگی بھر مظلوموں کے حامی و مددگار رہے۔
7 اکتوبر سے اب تک غزہ کی پٹی پر وحشیانہ اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 14 ہزار فلسطینی بچے شہید ہوچکے ہیں۔ ویسے بھی غزہ میں بچوں کی بڑی آبادی ہے۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اسرائیل خود کو ٹیکنالوجی کا ماہر بتاتا ہے۔ اس کے لیے بچوں کے قتل عام سے بچنا ممکن ہے۔ اسرائیل بچوں کے عالمی کنونش سمیت کسی بین الاقوامی قانون کی رعائت نہیں کر رہا ہے۔میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے غزہ کے الناصر چلڈرن ہسپتال سے اسرائیلی قابض فوج کی جانب سے طبی ٹیموں کو زبردستی نکالے جانے کے بعد پانچ نوزائیدہ فلسطینی بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔
انسانی حقوق گروپ نے الناصر چلڈرن ہسپتال میں پانچ نوزائدہ بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑنے کو صہیونی فوج کی کھلی جارحیت اور بچوں کا قتل عام قرار دیا۔ اسرائیل نے خوراک پر پابندیاں لگا رکھی ہیں، جس کی وجہ سے بچے شہید ہو رہے ہیں۔ اسی طرح مناسب ادویات میسر نہیں ہیں، جس کی وجہ سے بچے شہید ہو رہے ہیں۔ موسمی شدت کو بچے برداشت نہیں کر پا رہے اور شہید ہو رہے ہیں۔ اب اور سنیں صیہونی پارلیمنٹ 14 سال سے کم عمر (فلسطینوں) بچوں کو سزا دینے کیلئے قانون سازی کر رہی ہے۔ یعنی جو بچے ان کے قتل عام سے بچ جائیں، ان پر الزامات لگا کر انہیں گرفتار کر لیا جائے اور ان کی زندگی جیلوں میں سٹرتے گزرے۔
ایک طرف اسرائیل یہ مظالم کر رہا ہے تو دوسری طرف مسلمان حکمران منافق بنے ہوئے ہیں۔ اردگان کو ہی دیکھ لیں، ووٹ لینے کے لیے کہتے ہیں کہ میں نیتن یاہو نامی شخص کو رب کے ہاتھ میں چھوڑ رہا ہوں، خداوند اس پر لعنت کرے۔ اس سے قبل نیتن یاہو کا موازنہ ایڈولف ہٹلر سے کرچکے ہیں۔ عملی طور پر دیکھیں تو اسرائیل ترکی تجارت زورں پر ہے، ترکی نے اسرائیل کے ساتھ اپنی مضبوط تجارت 2024ء میں جاری رکھی ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا تھا کہ غزہ میں بچوں کا اجتماعی قتل عام ہو رہا ہے، جو انسانیت کے لمحہ فکریہ ہے۔ مسلمان کسی مذہب یا اس کے پیروکار سے نفرت نہیں کرتا اور ہمیشہ انصاف کیلئے کھڑا ہوتا ہے۔۔
بچوں کا یہ قتل عام دنیا کے غیر مسلم حکمرانوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے اور وہ مغربی تہذیب کے پورے سوشل نظام پر ہی سوال اٹھا رہے ہیں۔ کولمبیا کے صدر گسٹاوو پیٹرو نے کہا ہے کہ غزّہ پر بمباری کرکے اسرائیل نے صرف بچوں کا ہی نہیں آزادی، انسانی حقوق اور باہمی تعاون و اتحاد کا بھی قتل عام کر دیا ہے۔ دارالحکومت بوگوٹا میں منعقدہ ڈیموکریسی فورم سے خطاب میں گسٹاوو نے کہا ہے کہ دنیا کی جمہوری اقدار تہس نہس کر دی گئی ہیں۔ حالیہ اڑھائی صدیوں میں بحیثیت انسان ہم جمہوری اقدار سے بتدریج دُور ہوگئے ہیں۔ بہت سے مسلمان حکمران تو ایسے ہیں، جنہیں سرے سے زبانی مذمت کی بھی توفیق نہیں ملی بلکہ وہ اسرائیل کی مدد میں لگے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب سے اسرائیل کو تیل کی سپلائی مسلسل جاری ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق ایک سو پچاس بار یہ سپلائی فراہم کی گئی ہے۔
ہٹلر قابل نفرت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے بے گناہ یہودیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ ہم جنگ کی حالت میں بھی ہٹلر کے اس عمل کو قابل نفرت سمجھتے ہیں۔ ہٹلر نے بچوں کا قتل عام کیا، اگر ایسا ہی ہے تو آج اسرائیل کیا کر رہا ہے؟ ایک یہودی بزرگ فلسطین کا جھنڈا اٹھائے مظاہرہ کر رہے تھے، ایک خاتون صحافی نے پوچھا آپ کیوں آئے ہیں؟ اس بزرگ نے روتے ہوئے کہا کہ میرے والدین ہولو کوسٹ سے بچنے والوں میں شامل تھے، آج اہل غزہ کو وہی صورتحال درپیش ہے، جو ہمیں ہٹلر کے زمانے میں تھی، اس لیے میں اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں یہاں آیا ہوں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کی تدبیر ہمیشہ غالب آتی ہے، فرعون نے ہزاروں نومولود قتل کرائے، مگر موسیؑ پھر بھی پیدا ہوا اور اسی کے محل میں پروان چڑھا، فرعون اپنے لشکر سمیت نیل میں غرق ہوگیا۔