تحریر: فاطمہ محمدی
عرب لیگ نے 11 مارچ 2016ء کے دن حزب اللہ لبنان کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا لیکن اب کچھ دن پہلے اپنے اس موقف میں واضح تبدیلی کرتے ہوئے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ عرب لیگ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل حسام زکی نے کچھ دن پہلے لبنان سے واپسی پر ٹی وی پر بات چیت کرتے ہوئے کہا: "اس سے پہلے عرب لیگ کے رکن ممالک نے حزب اللہ کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا اور اس سے تمام تعلقات ختم کر دیے تھے لیکن اب ان ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ حزب اللہ کو دہشت گرد گروہ نہ کہا جائے اور اس سے تعلقات برقرار کرنے کے مقدمات بھی فراہم کئے جائیں۔" ڈپٹی سیکرٹری عرب لیگ کے اس موقف نے امریکی حکام کو آگ بگولا کر دیا ہے اور امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویڈان پینل نے عرب لیگ کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا: "حزب اللہ ایک خطرناک دہشت گرد تنظیم ہے اور مشرق وسطی میں عدم استحکام پھیلانے والی طاقت ہے۔" ویڈان پینل نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا: "ہمارا خیال ہے کہ یہ عنوان ہٹانے کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی اور ہم نے دنیا بھی کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کو ممنوعہ قرار دیں۔" اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے عرب ممالک نے اپنی راہیں امریکہ سے مکمل طور پر جدا کر لی ہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرب لیگ کی جانب سے 8 سال بعد حزب اللہ لبنان کے بارے میں اپنے موقف کو تبدیل کرنے کی کیا وجہ ہے اور خلیج فارس اور بحیرہ عرب کے اردگرد عرب ریاستیں اپنے اس فیصلے کے ذریعے کن منصوبوں اور اہداف کے درپے ہیں؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے درج ذیل نکات پر غور کیجئے:
1)۔ لبنان کے اندرونی سیاسی مسائل میں مداخلت کی منصوبہ بندی
اگرچہ یہ منظرنامہ ایک حد تک کمزور دکھائی دیتا ہے لیکن اس کا جائزہ لینا بے سود نہیں ہو گا۔ کچھ ماہرین عرب لیگ کے اس فیصلے کو لبنان میں سیاسی عدم استحکام سے جوڑ رہے ہیں۔ لبنان 2019ء سے انتہائی شدید سیاسی اور اقتصادی بحران کی لپیٹ میں ہے اور اس وقت سے عبوری کابینہ کے تحت چل رہا ہے جبکہ عملی طور پر صدر کی جگہ خالی ہے۔ گذشتہ برس پارلیمنٹ نے نئے صدر کے انتخاب کیلئے کئی اجلاس منعقد کئے لیکن وہ سب بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ اس ملک کے تین اہم سیاسی گروہ یعنی عیسائی، اہل تشیع اور اہلسنت، نئے صدر کے انتخاب کیلئے کوئی معاہدہ نہیں کر پائے۔ اسی طرح لبنان کے ماہرین قانون بھی 12 مرتبہ صدر کے انتخاب میں ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں۔
ایسے حالات میں سابق لبنانی صدر مائیکل عون کی مدت صدارت ختم ہوئے بھی طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ ان کی مدت صدارت 31 اکتوبر 2022ء کو ختم ہو گئی تھی لیکن اس کے بعد اب تک نئے صدر کیلئے مفاہمت حاصل نہیں ہو سکی۔ اس منظرنامے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عرب لیگ حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے باہر نکال کر لبنان کے اندرونی سیاسی حالات پر اثرانداز ہونا چاہتی ہے۔ مڈل ایسٹ فاونڈیشن کے محقق رندہ سلیم اس بارے میں کہتے ہیں کہ عرب لیگ کی جانب سے حزب اللہ لبنان کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کرنے کی کئی وجوہات پائی جاتی ہیں۔ عرب لیگ کی جانب سے حزب اللہ کو دہشت گرد گروہ قرار دیے جانے کے باعث عرب لیگ براہ راست اس گروہ سے رابط نہیں کر سکتی تھی۔ لبنان سے متعلق پانچ رکنی کمیٹی (مصر، قطر، سعودی عرب، فرانس، امریکہ) میں مصر کی شمولیت بھی اس فیصلے کی ایک وجہ ہے۔ قاہرہ حزب اللہ لبنان سے بات چیت پر زور دیتا آیا ہے۔
2)۔ غزہ جنگ کے دوران حزب اللہ کی ناقابل انکار فوجی طاقت
ماہرین کی کثیر تعداد کا خیال ہے کہ عرب لیگ نے یہ فیصلہ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں کیا ہے۔ وہ حالات جو گذشتہ نو ماہ سے جاری ہیں اور صیہونی رژیم غزہ کے خلاف مجرمانہ اقدامات میں مصروف ہے جبکہ حزب اللہ لبنان پوری طاقت سے فلسطینیوں کا دفاع کر رہی ہے۔ حزب اللہ لبنان نے میدان عمل میں خطے کی عرب حکومتوں پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک موثر اور فیصلہ کن کھلاڑی ہے لہذا اسے دہشت گرد گروہ قرار دے کر سیاست کے میدان سے نکال باہر نہیں کیا جا سکتا۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد حزب اللہ لبنان کی جانب سے غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی حمایت اور خطے کی سکیورٹی اور استحکام کی برقراری میں اپنی طاقت کا اظہار نیز صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کا مقابلہ ایسے اسباب ہیں جو عرب حکومتوں کے نقطہ نظر میں تبدیلی کا باعث بنے ہیں۔ حزب اللہ کی اعلی فوجی طاقت نے نہ صرف خطے کے عرب ممالک بلکہ موجودہ اور سابق صیہونی حکام سے بھی اپنی طاقت کا لوہا منوا لیا ہے۔
3)۔ خطے کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب سے ایران کے تعلقات میں بہتری
اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ تقریباً ایک عشرے سے شام، عراق، لبنان، یمن اور دیگر علاقوں میں اپنے اسلامی مزاحمت اتحادیوں کی کامیاب حمایت کی ہے جس کے نتیجے میں اکثر عرب ممالک آخرکار ایران کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور انہوں نے تہران سے ٹکراو چھوڑ کر اس سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس میں فیصلہ کن موڑ دو سال قبل چین کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوستانہ تعلقات کے فروغ کا معاہدہ تھا۔ لہذا دھیرے دھیرے عرب لیگ اور ایران کے اتحادی گروہوں کے درمیان بھی تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہونا شروع ہو گئے۔ مثال کے طور پر گذشتہ برس ایران اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات بحال ہو جانے کے کچھ ہی عرصے بعد سعودی عرب اور شام میں بھی سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے اور عرب لیگ میں شام کی رکنیت بھی بحال کر دی گئی تھی۔