تحریر: سید اسد عباس
مذکورہ بالا قول مختلف شخصیات سے منسوب کیا جاتا ہے، اس کا قدیم ترین موجد یونانی ڈرامہ نگار ایسکلیس کو تصور کیا جاتا ہے۔ جدید دور میں امریکی سینیٹر ہیرام جانسن نے مبینہ طور پر یہ جملہ 1917ء میں بولا تھا، لیکن امریکی کانگریس کے ریکارڈ کے مطابق ہیرام جانسن کا کوئی ایسا جملہ کہیں نقل نہیں ہوا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی میں میڈیا چینلز، سوشل میڈیا پوسٹیں دیکھ کر اس جملے نے اپنی جانب جذب کیا کہ واقعی ایسا ہے کہ جنگ میں پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے۔ کل یعنی 8 مئی 2025ء کو انڈیا کے تمام ٹی وی چینلز کی خبریں دیکھیں۔ ان چینلز نے رات تقریباً نو بجے مقبوضہ وادی کے علاقے جموں پر پاکستان کی جانب سے ڈرونز اور میزائلوں کی بارش اور پھر ان ڈرونز اور میزائلوں کو روسی ساختہ ڈیفنس سسٹم سے مار گرانے کی اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ اسی دوران پاکستان کے سکیورٹی ذرائع سے خبر آئی کے ہم نے جموں میں کوئی حملہ نہیں کیا ہے بلکہ یہ حملہ خود بھارت نے کیا ہے، جیسا کہ کل اس نے خود امرتسر میں حملہ کیا تھا۔
بات یہیں نہیں رکی، بھارتی چینلوں نے پاکستان پر جوابی کارروائی کی خبریں دینی شروع کر دیں۔ اب لاہور حملہ ہوگیا ہے، اب اسلام آباد پر حملہ کر دیا گیا ہے، اب بھارت کی نیوی بھی حملہ کر رہی ہے، اگلی خبر کراچی پورٹ کے بارے موصول ہوئی کہ وہاں کچھ نہیں بچا، پھر ایف 16 گرے، پائلٹ گرفتار ہوئے۔ حد تو اس وقت کراس ہوئی جب انھوں نے یہ خبر چلانی شروع کی کہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف شمشاد مرزا نے افواج پاکستان کا کنڑول سنبھال لیا ہے۔ خدا کی پناہ۔ خبر آئی کہ سرگودھا میں بھی اٹیک ہوگیا ہے، جب وہاں ایک عزیز سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سب امن و امان ہے۔ پاکستانی میڈیا پر بھی آپریشن سندور کے روز ایسے ہی بلند بانگ دعوے سننے کو ملے، جس کا جب وزیر دفاع پاکستان سے سی این این پر ثبوت مانگا گیا تو انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کی ویڈیوز اس کا ثبوت ہیں۔
سوشل میڈیا کے تقریباً تمام پلیٹ فارمز پر یہی صورتحال دیکھنے کو ملی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہندوستان نے جھوٹ کی اس فضاء کو کس لیے قائم کیا۔؟ جب تمام ہندوستانی چینلز پر یہ خبریں چلیں کہ پاکستان نے ڈرون اور میزائل حملوں کا آغاز کر دیا ہے تو یقیناً ہندوستانی شہریوں کے ہوش اڑ گئے ہوں گے کہ ابھی کوئی میزائل دلی، امرتسر، اتر پردیش کے کسی شہر میں آکر لگے گا۔ رات کی رپورٹنگ سے تو واضح طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں انھوں نے حملے کو پلٹ دیا اور پاکستان میں تباہی کی روداد سنانے لگے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کہ ہندوستان کسی نئے حملے کی تیاری کر رہا ہے، کیونکہ ایک رات قبل یعنی 7 مئی کی رات ہندوستان کے میڈیا چینلز نے امرتسر کے علاقے میں میزائل حملوں کی اطلاع دی تھی اور پھر صبح کے وقت اس نے پاکستان میں ڈرون حملوں کا آغاز کر دیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈرون گرنے شروع ہوئے، کراچی، بہالپور، لاہور، چکوال، راولپنڈی اور اٹک میں ڈرونز گرنے کا سلسلہ تقریباً پورا دن ہی چلتا رہا۔
7 مئی امرتسر کا میزائل ڈرامہ اور اس کے بعد ڈرونز کارروائی سے واضح طور پر سمجھ آرہا تھا کہ 8 مئی جموں میں میزائل بارانی کا ڈرامہ 9 مئی کی صبح کسی نئے حملے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کی میڈیا رپورٹنگ سے واضح محسوس ہو رہا تھا کہ بھارت پاکستان سے جنگ چاہتا ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بھارتی جارحیت خواہ وہ آپریشن سندور ہو یا 8 مئی کے ڈرون اٹیکس، کا ابھی تک باضابطہ جواب نہیں دیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل کی پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان جب اپنے مناسب وقت پر حملہ کرے گا تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ایل او سی پر دونوں افواج آمنے سامنے ہیںم اہلیان کشمیر کی اطلاعات کے مطابق گولہ باری کا سلسلہ ساری رات جاری رہتا ہے۔ دونوں ممالک کی حکومتوں پر حالیہ کشیدگی کے حوالے سے بیرونی دباؤ بھی ہے۔
کل ہندوستانی وزیر خارجہ کو امریکہ، یورپی یونین، اٹلی کے وزرائے خارجہ نے کالیں کیں اور تحمل سے کام لینے کو کہا، یہی صورتحال پاکستان کے حکمرانوں کی بھی ہے۔ اسرائیل کھل کر ہندوستان سے تعاون کر رہا ہے۔ بھارتیوں کو امریکہ اور ایران سے شکوہ ہے کہ وہ کھل کر بھارت کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ جنھوں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا ہے، دونوں ممالک سے صبر و تحمل کی درخواست کر رہے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کا فائدہ امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔ اس کشیدگی کے بعد دونوں ممالک مزید ہتھیار خریدنے پر مجبور ہوں گے، جو دونوں ممالک کی معیشت پر ایک اضافی بوجھ ہوگا۔ بعض مبصرین کے مطابق حالیہ جنگ کا مقصد آئندہ آنے والے ہندوستانی انتخابات میں مودی کی پارٹی کو مضبوط کرنا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ہندوستان میں بہار قانون ساز اسمبلی، راجیہ سبھا کی چند نشستوں، لوک سبھا کی ضمنی نشستوں پر انتخاب کے ساتھ ساتھ بھارت بھر میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سندھ طاس معاہدہ جس سے ہندوستان نکل چکا ہے، کے حوالے سے وہ کوئی نئی شرائط رکھنا چاہتا ہو اور حالیہ واقعات کو دباؤ کے لیے استعمال کرے۔ ایک اور وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے، آئی ایم ایف کے قرض کی اگلی قسط ہے، بھارت جو کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا ممبر ہے، پاکستان کو قرض کی اگلی قسط کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ پاکستان EFF، ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلٹی کے تحت سٹاف لیول ایگریمنٹ کرچکا ہے، جس کے تحت پاکستان کو ایک بلین ڈالر کی ایک قسط مل چکی ہے، جبکہ دوسری قسط ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد جاری ہونی ہے۔ ساتھ آر ایس ایف کے 1.3 بلین ڈالر کو شامل کیا جائے تو یہ کل 2.3 بلین ڈالر بنتے ہیں۔
پاکستان کو اس جنگ اور کشیدگی میں پھنسا کر شاید بھارت چاہتا ہو کہ EFF کی اگلی قسط جو کہ ایک بلین ڈالر ہے، کو رکوا دیا جائے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط کے اجراء کے لیے معاہدے کی شرائط پر عمل کرنے کے علاوہ، ملکی ڈھانچے میں اصلاحات، سیاسی یا سماجی استحکام (جنگ، انتظامی تعطل نہ ہونا) ضروری ہیں۔ ہندوستان اس شرط پر پاکستانی پوزیشن کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے آج یعنی 9 مئی 2025ء کو پاکستانی کیس کو ریویو کرنا ہے۔ مجھے تو یہی بات زیادہ صائب محسوس ہوتی ہے اور پاکستان بھی اسی وجہ سے بھارتی جارحیت کا متناسب جواب دے رہا ہے۔ واللہ اعلم