اسلام ٹائمز۔ تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم اسلامک جہاد نے اوسلو معاہدے کی سالگرہ کے موقع پر ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اوسلو معاہدے نے فلسطین کاز اور ملت فلسطین کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ بیانیے میں کہا گیا ہے کہ اوسلو معاہدے کا مقصد فلسطینی سرزمین کو چند ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ملت فلسطین کو ایکدوسرے سے علیحدہ کرنا تھا۔ اسلامک جہاد کے بیانیے میں آیا ہے: "اوسلو اور دیگر معاہدوں پر دستخط کرنے والے ملت فلسطین کے نمائندے نہیں تھے لہذا ملت فلسطین ان معاہدوں کی پاسداری کرنے کی پابند نہیں ہے۔" بیانیے میں مزید کہا گیا ہے: "ہم اسلامی مزاحمت کو مزید فروغ دینے کے حامی ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطین کی سرزمین کسی صورت میں چند ٹکڑوں میں تقسیم اور کم ہونے کے قابل نہیں ہے۔" اسلامک جہاد نے اپنے بیانیے میں کہا: "ہم تمام ایسے معاہدوں کی مخالفت کا اعلان کرتے ہیں جن میں ملت فلسطین کی استقامت اور ان کے قومی حقوق سے چشم پوشی کی گئی ہو۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس بارے میں شرطیں عائد کرنا محض وہم اور سراب ہے۔"
اسلامک جہاد نے اپنے بیانیے میں قومی وحدت کو فروغ دینے اور صیہونی دشمن کے خلاف فلسطین کی مکمل آزادی اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی تک بھرپور جدوجہد کی منصوبہ بندی کرنے پر زور دیا ہے۔ دوسری طرف مزاحمتی کمیٹیوں نے بھی اسلامک جہاد کی طرح اوسلو معاہدے کو ایک جاری رہنے والی غلطی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ملت فلسطین اب تک اس غلطی کا تاوان ادا کر رہی ہے۔ مزاحمتی کمیٹیوں نے اپنے بیانیے میں کہا: "ہم فلسطینی قوم کے حقوق کی پابندی اور دشمن سے تمام معاہدوں کو ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔" یاد رہے پی ایل او کے سابق سربراہ مرحوم یاسر عرفات نے خفیہ طور پر غاصب صیہونی حکمرانوں سے مذاکرات کی 14 نشستیں منعقد کرنے کے بعد ناروے کے شہر اوسلو میں ایک امن معاہدے پر دستخط کئے تھے جو اوسلو معاہدے کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے نے فلسطین کاز کو شدید نقصان پہنچایا اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے سازباز کا آغاز ہوا۔ اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے آج تک اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور ہمیشہ فلسطینیوں کو دھوکہ دیا ہے۔