اسلام ٹائمز۔ العالم نیوز چینل کے مطابق فن لینڈ کے صدر الیگزینڈر سٹب نے اخبار اکانومسٹ میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ الیگزینڈر اسٹب نے یورپی ممالک اور امریکہ کو مغربی دنیا کے طور پر مخاطب قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ورلڈ آرڈر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی حقیقت کا اعتراف کریں۔ فن لینڈ کے صدر نے اپنے مقالے کے مقدمے میں لکھا: "بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایسے لمحات پائے جاتے ہیں جن سے متوجہ ہوتے ہیں کہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے لیکن ابھی ہم ٹھیک سے نہیں جانتے کہ وہ کس سمت جا رہی ہے۔ ایسے لمحات جن میں ایک زمانہ مر جاتا ہے اور نیا زمانہ ابھی پیدا نہیں ہوا ہوتا۔ آج ہم انہی لمحات میں سے ایک میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔" الیگزینڈر اسٹب نے کہا کہ سرد جنگ کے بعد والا زمانہ اختتام پذیر ہو چکا ہے اور تجارت، ٹیکنالوجی، انرجی، انفارمیشن اور کرنسی جیسی چیزیں، جنہوں نے ہمیں ایکدوسرے کے قریب لانا تھا، اس وقت ہمیں ایکدوسرے سے دور کر چکی ہیں۔ انہوں نے عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "دو طرفہ انحصار خود بخود امن پر منتج نہیں ہوا ہے۔ بازاری اقتصاد آزاد تجارت میں تبدیل نہیں ہوئی۔ آزادی ہمیشہ لبرل ڈیموکریسی کے معنی میں نہیں تھی۔ مغرب سرد جنگ جیت گیا لیکن باقی دنیا کو یہ ماننے پر مجبور نہ کر سکا کہ وہ عالمی سطح کی اقدار اپنائیں۔"
فن لینڈ کے صدر نے مزید کہا: "ہماری موجودہ نسل بہت پہلووں سے 1918ء، 1945ء اور 1989ء کے سالوں سے برابری کرتی ہے۔" الیگزینڈر اسٹب نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ آنے والے سال ورلڈ آرڈر کے تعین میں بہت اہم ہیں، کہا: "ممکن ہے ہم پہلی عالمی جنگ کے بعد والے زمانے کی طرح جب لیگ آف نیشنز سپر پاورز کے درمیان جاری مقابلے بازی کو کنٹرول نہ کر سکی اور دوسری عالمی جنگ رونما ہو گئی، ایک بار پھر غلطی کا شکار ہو جائیں۔ ممکن ہے کچھ حد تک صحیح عمل کریں جیسے دوسری عالمی جنگ کے بعد کیا تھا اور اقوام متحدہ تشکیل پائی تھی۔" فن لینڈ کے صدر نے مزید کہا: "مجھ سمیت بہت سے مفکرین کا خیال تھا کہ سرد جنگ کا خاتمہ تاریخ کا خاتمہ ثابت ہو گا اور دنیا کے 200 ممالک کی اکثریت کھلے، آزاد اور جمہوری معاشروں کی طرف آگے بڑھیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔" انہوں نے بعد میں دنیا میں طاقت کے توازن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "حقیقت کو قبول کرنا پالیسی بنانے کا اچھا نقطہ آغاز ہے۔ مغربی تسلط کا دور جس طرح سے پہلے اسے پہچانتے تھے، ختم ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مستقبل میں عالمی سطح پر طاقت کی تقسیم کیسے ہو گی؟ ہم دنیا میں طاقت کے تین مراکز یعنی مغرب، مشرق اور جنوب کے درمیان نیا توازن قائم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔"
فن لینڈ کے صدر نے دنیا کے ممالک میں تقسیم بندی کے بارے میں لکھا: "مغربی دنیا تقریباً 50 ممالک پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر شمالی امریکہ اور یورپ میں ہیں جبکہ جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی ان میں شامل ہیں۔ یہ ممالک موجودہ ورلڈ آرڈر کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ انہوں نے ایسے قوانین اور ادارے بنائے ہیں جن کی وہ حمایت کرتے ہیں لیکن یہ ادارے بہت سے پہلووں سے آج کے جیوپولیٹیکل حقائق کی عکاسی کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔" الیگزینڈر اسٹب نے مزید لکھا: "مشرقی دنیا چین کی سربراہی میں 25 ممالک پر مشتمل ہے۔ اس کے پیروکار روس، ایران اور ایسے ممالک ہیں جو اقوام متحدہ میں یکساں ووٹ کے حامل ہیں۔ اس کے اراکین ایسے ورلڈ آرڈر کے درپے ہیں جو ان کے اپنے حکومتی نظاموں سے ہمسو ہو۔" فن لینڈ کے صدر نے کہا: "جنوبی دنیا 125 ممالک پر مشتمل ہے جو بہت مختلف قسم کے ہیں۔ ان میں جمہوری ممالک بھی ہیں اور ڈکٹیٹر ممالک بھی ہیں جو تین مختلف براعظموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انڈیا، سعودی عرب، نائیجیریا، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ممالک ان میں شامل ہیں۔ ان ممالک نے بدلتے ہوئے طاقت کے توازن میں اپنا مقام حاصل کر لیا ہے۔"