اسلام ٹائمز۔ لبنان کے جریدے الاخبار کیساتھ اسلامی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے کمانڈر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ کی فضائی طاقت کے بارے میں بہت سی معلومات شائع کی گئی ہیں یا محدود سیاق و سباق میں گردش کرتی رہتی ہیں، اب ہمیں دشمن کی کوئی فکر نہیں رہی، اس حوالے سے دشمن نے آج سے 15 سالوں میں جو بھی معلومات اکٹھی کیں ان کو پچھلے مہینوں میں آزمایا گیا، یہاں تک کہ یہ واضح ہو گیا کہ دشمن کے لیڈروں، سیاسی رہنماوں اور فوجی کمانڈروں کو جو چیز پریشان کر رہی ہے، وہ اس چیز کا ادراک ہے جس کا انہیں پہلے احساس نہیں تھا، اور حزب اللہ کی طاقت کے بارے میں جو ان کے انکار اور تکبر کا اظہار تھا، لیکن دشمن اب کہنے پر مجبور ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ حزب اللہ کے پاس ایسی صلاحیتیں ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہے، یہ خداوند حکیم و دانا کی عطا کردہ عزت ہے کہ دشمن جو خاد کو ذہانت کا خدا سمجھتا تھا، جس نے دہائیوں کے دوران افواج، گروہوں اور حکومتوں کے شعور کو ماند کیا اور ان کے خوابوں کو ناکام بنائے رکھا آج اس کی یہ حالت ہے کہ اس نے 7 اکتوبر کو سب سے بڑے دھچکے کا سامنا کیا، جس کے بعد دشمن کو غزہ اور لبنان سے عراق، یمن تک تمام محاذوں پر مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
لبنان کے معاملے میں دشمن نے اپنے پچھلے تمام اندازوں کے برعکس حقیقت کا سامنا کیا ہے۔ حزب اللہ کی "فضائی طاقت" کی اب تک جو صلاحیتیں سامنے آئی ہیں وہ کبھی تل ابیب میں تحقیق اور تشخیص کے لیے میز پر نہیں تھیں، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ صلاحیتیں ان کی توقعات کے مطابق بھی نہیں تھیں۔ اسرائیل کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی کے میدان میں ایرانی کوششوں کی تفصیلات سے آگاہ ہونے اور حزب اللہ کے پاس اس کی موجودگی کے بارے میں پہلے کی تمام اطلاعات کے باوجود دشمن حیران رہ گیا کہ معلومات جمع کرنے، تجزیے اور تشخیص میں انٹیلی جنس کی برتری کی بات ہو تو یہ اسرائیل میں "ذہانت کے خدا" تک محدود نہیں۔ اس کے بارے میں جب دشمن پر یہ واضح ہوا کہ حزب اللہ کے پاس ٹیکنالوجی اس قسم کی نہیں ہے، جو بڑی طاقتوں کے مقابلے میں نہایت کم مارجن پر گروہوں کو حاصل ہوتی ہے، بلکہ اس میں اتنی بڑی سرمایہ کاری ہوئی ہے کہ یہ دشمن کے مقابلے میں ایک اعلیٰ سطح کی برابری کی بنا پر اسے ہر قسم کے اقدام پر اکسانے کے لیے کافی ہے۔
بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ دشمن نے بیس سالوں کے دوران لبنان میں مزاحمت کی "صلاحیتوں کے مجموعے" کے مقابلہ میں کیا سوچا اور سمجھا۔ رائے عامہ نہ اسرائیل اور نہ ہی لبنان میں، نہ قابض فوج اور اس کے تمام سیکورٹی اور فوجی اداروں ان کی انٹیلی جنس سرگرمیوں اور بے مثال کوششوں سے واقف تھے۔ حزب اللہ کے مطلوبہ صلاحیتوں کے حامل ہونے سے روکنے اور اسے اس مرحلے تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کئی سالوں سے جاری منصوبے کے ایک حصے کے طور پر بہت سے لوگ سکیورٹی آپریشنز، حتیٰ کہ فوجی آپریشنز، اور اسرائیلی کمانڈو ٹیموں کی ہمت کے بارے میں نہیں جانتے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ دشمن کے اندازے ایک جگہ تھے جب کہ حزب اللہ اور اس کی صلاحیتیں بالکل مختلف جگہ پر تھیں۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جو نہ صرف اسرائیلی حساب سے باہر تھی بلکہ انٹیلی جنس اندازوں، تصورات اور مفروضوں سے بھی باہر تھی۔ یہ اسرائیلی انٹیلی جنس کے لیے اس قدر زبردست جھٹکا تھا کہ دشمن ایک مدت تک اس حقیقت کے انکار اور اس کے علاوہ دیگر وضاحتوں کی تلاش میں سرگرداں رہا، یہاں تک کہ دشمن کو ایک لمحے تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑا، جس نے دنیا کے لوگوں کے اجتماعی ذہن کو بیدار کر دیا، جس نے حیفہ کو مٹا دیا، اس طرح کا سروے اور اس طرح کی صلاحیتیں اسرائیلی اندازوں کی تہہ میں کہیں چھپی ہوئی تھیں۔ نقصان وہیں نہیں رکا، آسمان میں مزاحمتی قوت کی صلاحیتوں کے بارے میں دشمن کے انٹیلی جنس اندھا پن نے دشمن ہی کے لیڈروں میں ایک اور سطح کی بے چینی پیدا کردی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں کی جانے والی کوششوں نے ان مسائل کے حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کی، جو حزب اللہ کی زیادہ سے زیادہ حد تک پہنچ سکتی تھی۔ اب جب کہ تل ابیب رسائی میں ہے، دشمن نے دریافت کیا ہے کہ جو کچھ وہ نہیں جانتا، یا جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا، وہ صرف غلطی کا ایک حاشیہ نہیں ہے جس پر قابو پایا جا سکتا ہے، بلکہ وہ نامعلوم صلاحیتیں ہیں جنہیں اس وقت تک محسوس نہیں کیا جا سکتا جب تک اسے استعمال نہ کیا جائے۔ بشمول ان چیزوں کے جن کا دشمن کے پاس کوئی علاج و جواب موجود نہیں ہے۔ نامعلوم قسم کے ڈرونز اور نامعلوم قسم کے فضائی دفاع کا خوف بڑھتا جا رہا ہے، دشمن کسی بھی جنگ کے دوران ان صلاحیتوں کے اثرات اور اس کے نتائج کو بھگتنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
گزشتہ مئی میں، تل ابیب میں نیشنل سیکیورٹی ریسرچ سینٹر نے سفارش کی تھی کہ فوج کی قیادت "مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی سسٹمز کے ذریعے ڈرونز کی شکل میں حل اور ردعمل تلاش کرنے کے لیے ابھی سے تیار رہے، اور اپنے راستے پر بھروسہ کرے اور ہدف کو نشانہ بنائے۔ وہ تصاویر اور مناظر جو انہیں فوری طور پر موصول ہوتے ہیں، ان کی بنا پر۔ اس دوران دشمن کے لیڈروں کے ذہن میں ایک بار پھر برتری کی فطرت غالب آگئی اور اس نے مزاحمت کی اس نئی دنیا میں کام کرنے کی صلاحیت سے انکار کردیا۔ یہ ایک تکبر ہے، جو دشمن کو اس واضح سوال کا جواب دینے سے دور رکھتا ہے کہ محاذ پر سرگرم سب سے بڑے الیکٹرانک، تکنیکی اور حفاظتی بندوبست کی موجودگی میں حزب اللہ کے ٖضائی اسکاڈرن کیسے نشانے کی نشاندہی کر سکتے ہیں اور اپنے مقاصد پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟
اس مزاحمت نے، جس نے اس دنیا میں اپنی قابلیت قائم کرنے کے لیے ایک گھنٹہ بھی کام نہیں چھوڑا، اور کامیابی حاسل کی ہے، اس کے بارے میں دشمن نے طویل عرصے تک فخر کیا کہ وہ "آسمان کا خدا" یا "آسمان کا بادشاہ" ہے۔ لیکن اسلامی مزاحمت میں فضائیہ نے ایسا کچھ کیا ہے اور اس قدر وسعت اختیار کر لی ہے کہ موجودہ حالات میں ان کی ٹیمیں، ہتھیار، دماغ، کارکن اور رہنما بھی "آسمان کے بادشاہ" ہیں۔ اس نے پچھلے مہینوں میں جو کچھ استعمال کیا ہے وہ اس کا صرف ایک سادہ سا نمونہ ہے لیکن اسے وسیع تر تصادم پر مجبور کیا جائے تو وہ کیا کر سکتی ہے، مزاحمت اپنے ضابطوں کیوجہ سے محدود ہے، اور اس کی توانائی، خیالات، منصوبوں اور صلاحیتوں کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے، جو کئی دہائیوں پرانی کوششوں کے ثمر کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کی قیمت پسینے، خون اور آنسوؤں سے ادا کی گئی ہے۔
شاید دشمن کے سامعین یہ نہیں جانتے کہ حزب اللہ ککی طرف سے جس طرح کی اقدامی اور دفاعی تدبیرات جاری ہیں، ان کے پیچھے ایک سیاسی اور اخلاقی فیصلہ ہے۔ اسے بے ترتیب اہداف پر لانچ نہیں کیا گیا، نہ ہی اس نے کسی شہری مرکز کو نشانہ بنایا، اور نہ ہی اس نے کسی جنگل کو جلایا۔ لیکن مکمل جنگ کی صورت میں تصویر بالکل مختلف ہو گی، خاص طور پر اس بربریت کے سامنے جو دشمن کے رویے کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے مزاحمت کا تعلق 2006 کی جنگ کے دوران تھا، جب دشمن کا ایک جنگی طیارہ آخری لمحات میں ایک ڈرون کو مار گرانے میں کامیاب ہوا جو امونیا ٹینک کی طرف جا رہا تھا۔ اگر یہ وقت آیا تو اسرائیل کو حقیقی تباہی کا مطلب معلوم ہو جائے گا کہ ہم فلسطین اور لبنان میں مستقل طور پر اپنے اہداف حاصل کرنے میں ماہر ہے۔
اس سے بھی اہم اور زیادہ حساس بات یہ ہے کہ دشمن مزاحمتی کارروائیوں کا کوئی حل تلاش کرنے سے قاصر ہے، ہم نے اب تک بہت بڑی مقدار میں کھوج لگانے والے نظام کو تباہ کیا ہے، اور ایک خاص لمحے میں، فضائی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا سکتے ہیں۔ ہمارے لیے ہر قسم کے درست اور بھاری میزائلوں کے لیے راستہ کھلا ہے، جو تل ابیب کے تمام محلوں اور علاقے کے تمام شہروں تک جانے کا راستہ جانتے ہیں۔ مکمل جنگ کی صورت میں دشمن کو ایک ایسی کارروائی کے لیے تیار رہنا چاہیے، جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مزاحمت کی قیادت میں شامل افراد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دشمن کو اس کا احساس ایک خاص لمحے ہی ہوگا، جس دوران ڈرون "موت کی مثلث" کے آسمان پر قابض ہوں گے، جو شمال مشرق میں کریات شمونہ کے اڈوں کو مرکز میں پاماچیم اڈے سے جوڑتا ہے، مغرب اور جنوب میں آسف رامون ہوائی اڈے کا مقام۔ جہاں دشمن کی فضائی طاقت مرتکز ہے۔
واضح رہے کہ لبنان کے جریدے "الاخبار" نے اسلامی مزاحمت میں فضائیہ کی کہانی کا ایک باب پیش کیا ہے، جسے اس حزب اللہ کی فضائی فورس کے ایک کمانڈر نے بیان کیا ہے۔ یہ خصوصی طور پر فضائیہ میں ڈرونز کی دنیا سے متعلق ہے۔ یہ کہانی میزائل فورس کے علاوہ فضائی دفاعی نظام کے اولین تجربے کے طور پر اپنا تسلسل رکھتی ہے، جس کی تلاش اب دشمن کو چھوڑ دینی چاہیے، کیونکہ اب وہ جانتا ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اور جہاں بھی مڑتے ہیں، یہ فضائی دفاعی نظام وہاں موجود ہوتا ہے۔