0
Thursday 22 Aug 2024 16:55

مبارک ثانی کیس، سپریم کورٹ کا علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ

مبارک ثانی کیس، سپریم کورٹ کا علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مبارک ثانی کیس میں نظرِ ثانی کی اپیل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں وفاق کی متفرق درخواست کی سماعت کے دوران علماء کی معاونت لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ توہینِ مذہب کے اس مقدمے میں گرفتار ملزم کی جانب سے درخواستِ ضمانت مسترد کیے جانے کے خلاف اپیل پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے چھ فروری 2024ء کو فیصلہ دیتے ہوئے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم شروع ہو گئی تھی اور بعد ازاں اس مہم میں ملک کی مذہبی جماعتیں بھی شامل ہو گئی تھیں۔
 
جمعرات کو اس معاملے کی سماعت کے موقع پر مذہبی جماعت تحریکِ لبیک نے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کا بھی اعلان کیا تھا جس کے بعد حکام نے ریڈ زون کو سیل کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر جمعرات کو اٹارنی جنرل منصور اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ان کا کہنا تھا عدالت کے فیصلے کے بعد پارلیمان اور علماء نے حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ منصور اعوان کا کہنا تھا کہ انھیں اس بارے میں سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط ملا تھا اور وزیراعظم کی جانب سے بھی ہدایات ملی تھیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ مذہبی نوعیت کا ہے تو علماء کو سن لیا جائے۔
 
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ اس بات کا تعین کرنا چاہتے ہیں کہ کون کون ہماری رہنمائی کرے گا سو بتایا جائے کہ کون سے علماء عدالت میں موجود ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد، مولانا ابو الخیر آزاد، مولانا محمد زبیر اور کمرہ عدالت میں موجود دیگر علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا۔کمرہ عدالت میں موجود مولانا فضل الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہے تو ہمیں بتائیں۔
 
سماعت کے دوران مفتی تقی عثمانی ترکی سے بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہوئے۔ انھوں نے عدالت سے فیصلے کے پیراگراف نمبر سات اور 42 کو حذف کرنے کی استدعا کرنے کے علاوہ مقدمے سے دفعات خارج کرنے کے حکم میں بھی ترمیم کی استدعا کی۔ مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑ دے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’مبارک ثانی نجی تعلیمی ادارے میں معلم تھا، گویا عدالت نے تسلیم کر لیا کہ احمدی ایسے ادارے بنا سکتے ہیں۔
 
انہوں نے کہا کہ عدالت نے کہا ہے کہ قادیانی بند کمرے میں تبلیغ کر سکتے ہیں جبکہ قانون کے مطابق قادیانیوں کو تبلیغ کی کسی صورت اجازت نہیں ہے۔مفتی تقی عثمانی نے یہ بھی کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298 سی کو مدنظر نہیں رکھا۔ اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر عدالت اس کی اس کی وضاحت کر دے تو کیا یہ کافی ہوگا؟ مفتی تقی عثمانی نے درخواست کی کہ عدالت وضاحت کرنے کے بجائے فیصلے کا متعلقہ حصہ حذف کر دے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلے کے پیراگراف 42 میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا یعنی غیر مشروط اجازت دی گئی۔
 
اس پر چیف جسٹس نے متعلقہ سیکشن پڑھ کر سنایا جس کے مطابق غیر مسلم کو خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ احمدی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیر مسلم نہیں تسلیم کرتے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ غلطی سے ماورا نہیں ہیں اور عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہے ان کی نشاندہی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں۔
 
چیف جسٹس نے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو روسٹرم پر بلایا تو ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے پر مذہبی جماعتوں اور علماء کرام کے تحفظات عدالت کے سامنے ہیں، مفتی تقی عثمانی کی درخواست کی حمایت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ عدالت کو اپنے پورے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دی ہم نے فوری لگادی کوئی بات چھپائی؟ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ علما اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی سامنے آ چکی ہے جو کہ آپ کے فیصلے کے خلاف ہے۔
 
اس سے پہلے سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی میں جب آپ نے فیصلہ دیا تو پارلیمنٹ اور علمائے کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کر کے کہا کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط ملا تھا اور وزیراعظم کی جانب سے بھی ہدایات کی گئیں تھی، ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہو سکتی، اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے آئے ہیں، عدالت کی جانب سے فریقین کو نوٹسز جاری کیے گئے تو فریقین عدالت میں اور ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے ہیں، انہوں نے استدعا کی کہ کیونکہ معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے۔
 
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن مجبور ہوں کہ میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے، انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے، پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے، آئین کی 50 ویں سالگرہ پر میں خود پارلیمنٹ میں گیا، میری ہر نماز کے بعد ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ کوئی غلط فیصلہ نہ ہو، آپ کا شکریہ کہ آپ ہمیں موقع دے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1155539
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش