0
Friday 23 Aug 2024 16:54

وقف ترمیمی بل مسلمانوں کی املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ

وقف ترمیمی بل مسلمانوں کی املاک کو ہڑپنے کی سازش ہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ
اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت علماء ہند، جماعت اسلامی ہند اور جمعیت اہل حدیث سمیت مختلف تنظیموں نے مشترکہ پریس کانفرنس کرکے شدید طور پر مخالفت کی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور تمام مسلم تنظیمیں و ادارے اور مسالک نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ نئے مجوزہ وقف ترمیمی بل کو وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو تہس نہس اور ہڑپنے کی ایک گھناؤنی سازش قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل کو واپس لے۔ اس موقع پر وقف ترمیمی بل کے حوالے سے پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈوں کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماً ممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔

سینٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم ممبر رکھا جاسکتا تھا، مجوزہ بل میں یہ تعداد 13 تک ہوسکتی ہے، جس میں دو تو لازماً ہونے ہی چاہیئے۔ اسی طرح وقف بورڈ میں پہلے صرف چیئرمین غیر مسلم ہوسکتا تھا لیکن مجوزہ بل میں یہ تعداد 7 تک ہوسکتی ہے، جبکہ بل کے مطابق دو تو لازماً ہوں گے۔ پریس کانفرنس میں کہا گھیا کہ یہ تجویز دستور کی دفعہ 26 سے راست متصادم ہے جو اقلیتوں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی و ثقافتی ادارے نہ صر ف قائم کر سکتے ہیں بلکہ اس کو اپنے انداز سے چلا بھی سکتے ہیں۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ مجوزہ ترمیمی بل وقف املاک پر حکومتی قبضہ کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے، اگر کسی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار بھی کلکٹر کے حوالہ کر دیا گیا ہے۔ کلکٹر کے فیصلہ کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کروائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے کہے گی کہ وہ اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کر دے۔ موجودہ وقف ایکٹ میں کسی بھی تنازعہ کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل کے اندر لانا ضروری تھا، اس کے بعد کوئی تنازعہ سنا نہیں جائے گا۔ اب یہ شرط بھی ہٹادی گئی ہے۔

اس طرح ایسی مساجد، مدرسے، درگاہیں اور قبرستان چاہے وہ صدیوں سے استعمال میں رہے ہوں لیکن ملک کے ریوینو ریکارڈ میں اگر ان کا اندراج نہ ہو تو ان پر مقدمات، تنازعات اور غیر قانونی قبضوں کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ مجوزہ بل میں وقف کے لئے ایک مضحکہ خیز شرط لگائی گئی ہے کہ وہ کم از کم گزشتہ پانچ برس سے اسلام پر عمل کررہا ہو۔ یہ تجویز بنیادی اخلاقیات اور دستور ہند کی روح کے بھی خلاف ہے۔ جب کہ موجودہ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کی جانب سے کسی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو مستقل طور پر نذر کر دینا کسی ایسے مقصد کے لئے جو مسلم قانون کے تحت دینی یا خیراتی عمل تسلیم کیا گیا ہو۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کون شخص اسلام پر عمل پیرا ہے یا نہیں اس کی سند کون دے گا۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ جہاں ایک طرف مجوزہ بل میں غیر مسلموں کو ممبر بنانے کی تجویز ہے، وہیں یہ بل غیر مسلموں کے ذریعہ اپنی کسی جائیداد کو وقف کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ وقف املاک حکومت کی املاک نہیں ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کی اپنی ذاتی املاک ہیں جو انہوں نے مذہبی اور خیراتی کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ کو پیش کی ہیں۔ وقف بورڈ اور متولیوں کا رول انہیں صرف ریگولیٹ کرنے کا ہے۔

پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور تمام دینی و ملی تنظیمیں اس بل کو جو وقف املاک کو تباہ و برباد کرنے اور ان پر قبضوں کی راہ ہموار کرنے کے لئے لایا گیا ہے، ہرحال میں مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسے فوری طور پر واپس لے۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا ’’ہم این ڈی اے میں شامل سیکولر سیاسی پارٹیوں اور حزب اختلاف کی تمام پارٹیوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بل کو ہرگز ہرگز بھی پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دیں۔ مسلم رہنماؤں نے کہا کہ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر وقف املاک کو تباہ کرنے والا اور وقف املاک کے قبضوں کی راہ ہموار کرنے والا یہ بل اگر پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو بورڈ مسلمانوں، دوسری اقلیتوں اور تمام انصاف پسند لوگوں کے ساتھ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1155665
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش