اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس کی سماعت کے دوران علامہ سید جواد نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ قادیانیت کو ایک مذہب، نظریے یا اقلیت کے بجائے ایک فتنے کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔ قادیانیت کو مذہب یا فرقے کے طور پر تسلیم کرنے سے عدالت اور ریاست کی سوچ میں ایک بنیادی غلطی پیدا ہوتی ہے، جو اس فتنے کی اصل نوعیت کو سمجھنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ انہوں نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فتنہ ایک ایسا عنصر ہوتا ہے جو معاشرتی، مذہبی، اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرتا ہے، اسلئے قادیانیت کو اقلیت اور غیر مسلم قرار دینا ایک ناقص قدم تھا، جس سے فتنے کو عالمی سطح پر حمایت ملی، دنیا بھر کے ممالک اور ادارے مسلمان دشمنی میں اس فتنے کو تحفظ فراہم کرنے لگے، چنانچہ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور اس فتنے نے عالمی سطح پر ایک اہمیت حاصل کر لی۔
علامہ جواد نقوی نے قادیانیت کے مسئلے کو آئینی سطح پر درست کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح ریاست نے مذہبی دہشت گردی کو "فتنہ خوارج" کے طور پر تسلیم کیا ہے، اسی طرح قادیانیت کو بھی ایک فتنہ قرار دینا چاہیے اور آئین میں اس کی تصحیح کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے قادیانیت کو مذہبی حقوق اور آزادیوں کیساتھ جوڑ کر ایک بڑی غلطی کی ہے، جس سے نہ صرف عدالتی نظام بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے میں انتشار پیدا ہوا ہے۔ علامہ جواد نقوی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان میں موجود دیگر سیاسی اور مذہبی فتنوں کے خلاف مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی بحران، فرقہ واریت، اور دیگر داخلی مسائل بھی فتنوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور ان کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام علیؑ کی تعلیمات میں فتنوں کے خاتمے کا بہترین نمونہ موجود ہے۔ امام علیؑ نے ہمیشہ فتنوں کو ابتدائی مراحل میں ہی ختم کیا تاکہ وہ پھیل نہ سکیں اور معاشرتی امن و استحکام برقرار رہے۔ امام علیؑ نے نہج البلاغہ میں فرمایا کہ "فتنوں کو دودھ مت پلاؤ اور ان کو سواری مت دو،" یعنی انہیں پنپنے کا موقع نہ دو۔ علامہ نقوی نے ریاستی اداروں پر زور دیا کہ وہ بھی اسی حکمت عملی کو اپنائیں اور فتنوں کو ابتدائی مراحل میں ہی روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
علامہ جواد نقوی نے اس بات کو بھی سراہا کہ عدالت، حکومت، پارلیمان اور علماء کے درمیان تعاون سے بحران کا حل نکالا گیا۔ انہوں نے چیف جسٹس کے کردار کی تعریف کی جنہوں نے علماء کے ساتھ احترام سے بات کی اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا مظاہرہ کیا جس سے ایک غیر معمولی مثال قائم ہوئی۔ علامہ نقوی نے علماء کے کردار کو بھی سراہا، جنہوں نے اس معاملے میں عدالت اور حکومت کیساتھ تعاون کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاست اور علماء متحد ہو کر فتنوں کیخلاف کام کریں، تو پاکستان کے اندرونی بحرانوں کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے علماء کو یہ نصیحت کی کہ وہ مذہبی اور سیاسی فتنوں کیخلاف بھی آواز بلند کریں اور ان کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کریں۔ علامہ نقوی نے کہا کہ علماء کو چاہیے کہ وہ ریاست کیساتھ مل کر فتنوں کیخلاف ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں تاکہ ملک کو انتشار اور تباہی سے بچایا جا سکے۔